top of page

کووڈ – 19 : نئے عالمی نظام کا آغاز

- Fariha Azim

کووڈ- 19 ایک ایسا وائرس ہے جوظاہری طور پر تعلیم یافتہ،  اسمارٹ  اور بہت ہی ہوشیار لگتا ہے۔ اسے کسی بھی قسم کے شور و غل  سے الرجی ہے۔یہ زیادہ تر بند اور ایر کنڈیشنڈ کمروں میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے ۔ اس  کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جو لوگ اس کی پسند اور ناپسند  کا خیال رکھتے ہیں  اس پر یہ اپنا تن من  دھن سب نچھاور کر دیتا ہے اور جس پر اِس کا دل  آ جاتا ہے اسے اپنا نے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ اس وائرس  کے بارے میں ہمارے ملک کی حکومت نے جو اعلانات کیے ہیں اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ وائرس اپنی گوناگوں خوبیوں کے باوجود بہت ہی ڈرپوک اور نازک مزاج ہے  اور  اگر کوئی ماسک پہن کر اس کے قریب آجاتا ہے تواس کی بولتی بند ہوجاتی ہے ۔

 یہ  وائرس کسی ماہر سیاست داں کی طرح پینترے بدلنےمیں بھی مہارت رکھتا ہے ۔اسے کبھی ماسک پہنے لوگوں کی شکل اچھی نہیں لگتی تو کبھی بغیر ماسک والوں سے بھی دوری بنا کر رکھتا ہے ۔ اسے یہ بھی  معلوم ہے کہ کب ، کہاں اور کتنے لوگ ایک ساتھ اکٹھا ہوسکتے ہیں ۔ عام طور پر یہ وائرس اپنا جال اس وقت بچھاتا ہےجب لوگ6 یا 6 سے زیادہ کے گروپ میں ہوتے ہیں۔ شادی اور موت  کے  فرق سے بھی یہ   بخوبی واقف ہے۔   شادی کی تقریب میں لوگوں کواس وقت تک  متاثر نہیں کرتا ہے جب تک لوگوں کی تعداد 50 سے زیادہ نہ ہوجائے۔  اسی طرح کسی کے جنازے اور آخری رسومات کے موقع پراگر 30 سے کم لوگ ہوں تو یہ ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتا  ۔ اس وائرس کی ایک دلفریب خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے  پاس ایک گھڑی ہوتی ہے جو وقت  کے بارے میں مسلسل آگاہ کرتی رہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ   

 پب اور ریستوراں میں رات کے  10 بجنے  کے بعد پہنچتا ہے اور پھر اپنی کارستانی  دکھاتا ہے۔  اسے  سینما ہال  اور جم جانے میں بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ سینما کی ٹکٹ اور جم کی ممبر شپ لینے کو یہ فضول خرچی سمجھتا ہے ۔  ایسا لگتا ہے کہ اس وائرس کو پڑھنے لکھنے کا بھی بہت شوق  ہے اس لیے یہ اسکول جانے سے گریز  نہیں کرتا بشرطیکہ وہاں

           بچےبڑے بڑے گروپ میں نہ ہوں ۔  

LOLOLOLOWGEFIOQWVBFH_edited.jpg
fhsiddyfqbefkmdnfohvgpqbrggvfbljd.jpg

ویسے تو اِسے لوگوں کا ہجوم کچھ خاص حالت میں  پسند  ہے ورنہ عام طور پر  اسے بھیڑ سے نفرت ہے۔لیکن کچھ لوگ نہایت بے ہنگم اور  ڈھیٹ ہوتے ہیں  اور  خواہ مخواہ جہاں تہاں بھیڑ لگا دیتے ہیں ۔یہ لوگ نہ تو صاف صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی آرائش و زیبائش کا ۔  انہیں نہ تو وقت کی نزاکت کا خیال ہوتا ہے اور نہ ہی سرکاری اعلانات کا ۔ ایسے لوگوں کو یہ وائرس خاطر میں نہیں لاتا اور نہ ہی اِسے ایسے لوگوں  کی ناز برداری قبول ہے۔ان ہی میں سے کچھ لو گ ایسے بھی ہیں جنہیں نہ تو کھانے پینے کا ہوش ہوتا ہے اور نہ  ہی ان میں رہنے سہنے کا ڈھنگ ہوتا ہے۔ان میں   نہ تو زندگی کا سلیقہ ہوتا ہے اور نہ ہی سماجی شعور ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی اور ہی دنیا سے ہماری دنیا میں آگئے ہیں اور اسے آلودہ کرنے  کے درپے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟  اگر یہی سب کرنا تھا  تو اپنی ہی دنیا میں رہتے،  وہاں اپنی مرضی سے جو چاہتے وہ کرتے ، کوئی  انہیں روک ٹوک نہیں کرتا۔ حالانکہ کچھ لوگوں نے اُنہیں رام اور رہن سہن کے طریقے سکھانے  کی بھرپور کوشش کی لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے  لاک ڈاؤن کے دوران کچھ تصویریں اور ویڈیو وائرل ہو رہے تھے جس میں دکھایا گیا تھا کہ یہ لوگ سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ پر سوئے پرے ہیں اور وائرس کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں ۔ ان کے چہرے پر نہ تو ماسک ہے اور نہ ہی بدن ڈھانکنے کے لیے مناسب کپڑے ۔ جو کچھ زیب تن ہے وہ بھی دھول مٹی سے اٹے پڑے  ہیں ، جیسے مہذب انسانوں کے منھ چڑا رہے ہوں ۔ اس کے باوجود کچھ لوگ انہیں نہلا رہے تھے تو کچھ ان کے بالوں میں کنگھی کر رہے تھے اور انہیں نئے نئے کپڑے پہنا رہے تھے ۔

اس وائرس کو سیاسی لوگ  پسند نہیں  ہیں کیونکہ یہ لوگ ہر وقت قاعدہ قانون اور ڈسپلن میں رہنے  کی باتیں کرتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے میں بھی یہ بہت احتیاط سے کام لیتا ہے ۔ ریلوے اسٹیشنوں اور  بس اڈوں پر بھی پوری شان و شوکت سے موجود رہتا ہے  اور جب تک سفر کرنے والے بسوں اور ٹرینوں کے اندر نہیں چلے جاتے اس وقت تک انہیں اپنی پوری نگرانی میں رکھتا ہے  ۔

لب و لباب یہ ہے کہ اس وائرس نے دنیا میں ہر طرح کے تعصب ، تفریق اور امتیاز کوایسی زک پہنچائی ہے کہ اس کے سامنے نہ کوئی امیر ہے نہ غریب، نہ کوئی گورا ہے نہ کالا۔  بلکہ اس نے ایسی تبدیلی کا آغاز ہے جو ایک نئے عالمی نظام کی جانب اشارہ کرتا  ہے جس میں گھر ، دفتر، تعلیم ، کھیل کود ، کاروبار، سفر یہاں تک کہ عبادت کا طریقہ بھی بدل جائے گا۔ جس مساوات اور برابری کو رائج کرنے کے لیے حضرت انسان صدیوں سے کوشاں تھے،  اس وائرس نے  اُسے ایک سال میں کر دکھایا ہے ۔

bottom of page